قبائلی ماں کی تربیت: علم سے زیادہ عمل کی طاقت

تحریر: رضیہ محسود (دخترِ وزیرستان)

آج کا دور بدل چکا ہے۔ موبائل فون، سوشل میڈیا، اور تعلیمی ادارے بچوں کے خیالات و نظریات پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ لیکن قبائلی علاقوں کی ایک بڑی حقیقت اب بھی جوں کی توں ہے — مائیں ان پڑھ ہیں، باپ پردیس میں ہے، اور بچے ایک ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں تربیت کی ضرورت سب سے زیادہ ہے۔

تو سوال یہ ہے: ایک ان پڑھ ماں اپنے بچوں کی تربیت کیسے کرے؟
کیا تربیت صرف کتابوں سے ہوتی ہے؟ کیا ڈگری کے بغیر کوئی ماں اپنے بچے کو ایک بہتر انسان نہیں بنا سکتی؟

میرا جواب ہے: ضرور بنا سکتی ہے!

کردار سے تربیت۔ ماں کی شخصیت خود سبق ہے

قبائلی ماں اگر روز پانچ وقت کی نماز پڑھتی ہے، سچ بولتی ہے، اور صبر سے کام لیتی ہے، تو بچے وہی سیکھتے ہیں۔ ماں کا کردار سب سے پہلا مدرسہ ہے۔بچوں کے سامنے کسی کی غیبت نہ کیا کریں۔کھبی جھوٹ نہ بولیں کھبی بچوں کو یا جانوروں کو بدعائیں نہ دیں ۔گھر کے افراد کی بچوں کے سامنے برائیاں نہ کریں۔بچوں کو عزت و احترام اور معاف کرنے کا درس دیتی رہیں۔بچوں کو دوسروں کیساتھ کھانے کی چیزیں شئیر کرنے کا درس دیا کریں تاکہ بچوں میں کنجوسی اور خود غرضی و لالچ جیسی بیماریاں پروان نہ چڑیں ۔بچوں کو ہمیشہ ہمت دیا کریں کہ آپ سب کرسکتے ہیں بس صرف محنت کی ضرورت ہیں۔بچوں کو دین اسلام کی صحیح سمجھ بوجھ دیں ۔بچے اگر غلطی کریں اور گھر میں والدین کو اپنی غلطی کے بارے سچ بتائیں تو بچوں کو اس غلطی پر نہ ڈانٹے بلکہ اس کو پیار سے سمجھائیں تاکہ وہ بچے آئندہ بھی اپنے والدہ کیساتھ ہر بات شئیر کیا کریں۔

قبائلی مائیں پشتو، اردو یا اپنی مقامی زبان میں کہانیاں سنانے کی روایت کو زندہ رکھیں۔
ایک کہانی “شیر اور بکری” یا “جھوٹ بولنے والے چرواہے” کی — ایک سبق آموز پیغام بن سکتی ہے۔
یہ نہ صرف بچوں کو سچ، ہمت، اور ایمان سکھاتی ہیں بلکہ ماں سے ایک جذباتی رشتہ بھی مضبوط کرتی ہیں۔
باپ کا پردیس میں ہونا — خلا کیسے پُر ہو؟

پردیس میں موجود والدین سے درخواست ہے کہ بچوں سے صرف پیسے نہ بھیجیں، وقت بھی دیں۔
روزانہ ایک کال، بچوں کی بات سننا، ان سے محبت کے دو بول — یہ سب ان کے دلوں میں آپ کو زندہ رکھتے ہیں۔

اور ماں! وہ ان خالی لمحوں میں باپ کی کہانیاں، اس کی دعائیں اور اس کی محنت کا تذکرہ کر کے بچوں کو ذمہ داری اور احترام سکھا سکتی ہے

فلاحی ادارے جیسے رضیہ محسود ڈیویلپمنٹ فاؤنڈیشن (RMDF)، گاؤں کی مساجد، یا مدرسے ۔ اگر ماؤں کے لیے “تربیت والدین کلاسز” کا انعقاد کریں تو ان پڑھ ماؤں کو نئی روشنی مل سکتی ہے۔

ماں علم کے بغیر بھی چراغ جلانا جانتی ہے

قبائلی ماں کے پاس شاید ڈگری نہیں، لیکن اس کے پاس محبت، خلوص اور صبر کا خزانہ ہے۔
اگر وہ روزانہ دعا دے، وقت دے، اور بچے کو جھوٹ، بدتمیزی اور زیادتی سے روکے — تو وہ بہترین تربیت کر رہی ہے۔

“پہاڑ جیسا حوصلہ، صحرا جیسا صبر — یہی ہے قبائلی ماں کی اصل پہچان!”

دختر_وزیرستان

قبائلی_ماں

تربیت_اولاد

RaziaMahsoodFoundation

PashtunParenting

About the Author

Razia mehsood

i am from tehsil ladha south waziristan tribal district,i am the first active female journalist,Social worker,Social Activist,Chairperson District Comettee on the Status of Women SWTD.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like these