قبائلی وادیِ خاموشی میں عورت کی صدا

 تحریر۔  رضیہ محسود


یہ کوئی کہانی نہیں، یہ ایک کڑوا سچ ہے—ایک ایسی حقیقت جسے سننے، سمجھنے اور قبول کرنے کے لیے نہ معاشرہ تیار ہے، نہ ہی وہ ادارے جو خود کو ترقی اور مساوات کا علمبردار کہتے ہیں۔ میں، (رضیہ محسود،) ایک ایسے علاقے میں کھڑی ہوں جہاں عورت کی آواز دبانے کو غیرت سمجھا جاتا ہے، جہاں اس کے حقوق پر بات کرنا گناہ ہے، اور جہاں نظام کے رکھوالے ہی اسے پیچھے دھکیلنے میں پیش پیش ہیں۔

یہاں عورت کی تکلیف کسی کو نظر نہیں آتی، یہاں اس کی چیخیں صدیوں پرانی روایات کی دیواروں سے ٹکرا کر خاموش ہو جاتی ہیں۔ وہ عورت جو زندگی دیتی ہے، اسے ہی زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم رکھا جاتا ہے۔ یہاں اسپتال ہیں مگر خواتین کے لیے نہیں، یہاں ڈاکٹر ہیں مگر عورتوں کے لیے نہیں، یہاں قانون ہیں مگر صرف کاغذوں میں۔ جب کوئی پوچھے کہ خواتین کے حقوق، وسائل اور مشکلات پر بات کیوں نہیں کی جاتی، تو جواب ملتا ہے: “یہ ایک حساس معاملہ ہے، اس پر بات کرنا منع ہے۔”

کیا خواتین کی صحت پر بات کرنا حساس ہے؟

کیا ان کی تعلیم پر بات کرنا ممنوع ہے؟

کیا ان کے جینے کے حق کو تسلیم کرنا گناہ ہے؟

یہ وہ علاقہ ہے جہاں عورت زچگی کے وقت کسی لیڈی ڈاکٹر کے بغیر زندگی اور موت کی جنگ لڑتی ہے۔ جہاں غیرت کے نام پر اسے کچرے کے ڈھیر پر بٹھا دیا جاتا ہے۔ جہاں اس کے نام پر فنڈز لیے جاتے ہیں، مگر وہ کبھی اس کے حق میں استعمال نہیں ہوتے۔ جہاں اس کے لیے صرف وعدے ہیں، خواب ہیں، اور کاغذی کارروائیاں ہیں۔

مگر میں  ( رضیہ محسود )خاموش نہیں ہوں۔

میں ( رضیہ محسود )نے اپنی آواز بلند کی ہے، میں( رضیہ محسود )نے ان دیواروں پر ضرب لگائی ہے جو عورت کو پیچھے رکھنے کے لیے کھڑی کی گئی تھیں۔ میں (رضیہ محسود )نے ان سوالوں کو اٹھایا ہے جنہیں دبانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ اگر یہ معاشرہ یہ سمجھتا ہے کہ میں(رضیہ محسود )پیچھے ہٹ جاؤں گی، تو وہ غلط سوچ رہا ہے۔

یہ جنگ صرف میری(رضیہ محسود )نہیں، ہر اس عورت کی ہے جو اپنی زندگی کے فیصلے خود  اسلامی دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے کرنا چاہتی ہے۔ ہر اس ماں، بہن اور بیٹی کی ہے جو عزت کے نام پر قید نہیں، بلکہ اپنے خوابوں کے ساتھ جینا چاہتی ہے۔ یہ لڑائی اس فرسودہ نظام کے خلاف ہے جو عورت کے حقوق کو اپنی انا کی بھینٹ چڑھاتا ہے۔

یہ سفر مشکل ضرور ہے، مگر نا ممکن نہیں۔

آج میری(رضیہ محسود )آواز کمزور لگ سکتی ہے، مگر کل یہی آواز گونج بنے گی۔

اور جس دن یہ خاموش وادی بولنے لگے گی،

اس دن نہ کوئی رکاوٹ رہے گی، نہ کوئی پابندی۔

دختر وزیرستان رضیہ محسود

About the Author

Razia mehsood

i am from tehsil ladha south waziristan tribal district,i am the first active female journalist,Social worker,Social Activist,Chairperson District Comettee on the Status of Women SWTD.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like these