تحریررضیہ محسود کے قلم سے

میں کون ہوں؟ ایک بیٹی، جو اپنے باپ کی شفقت کی طلبگار تھی، مگر مجھے ایک فیصلہ بنا دیا گیا۔
میری گڑیا ابھی کھیلنے کے قابل تھی، میں خود کیسے زندگی کے کھیل کا حصہ بن گئی؟
میری ہنسی ابھی گونجی بھی نہ تھی کہ مجھے آنسوؤں کی زنجیر پہنا دی گئی۔
میری انگلیاں ابھی قلم تھامنے کی خواہش مند تھیں، مگر مجھے کسی کے ہاتھ میں دے دیا گیا۔
یہ ونی کیا ہے؟ یہ انصاف ہے یا ظلم؟
یہ صلح ہے یا صدیوں پرانی غلامی؟
یہ روایات ہیں یا معصوم خوابوں کا قتل؟
میں بھی جینا چاہتی تھی، پڑھنا چاہتی تھی، خواب دیکھنا چاہتی تھی!
لیکن میرے حصے میں صرف سسکیاں آئیں، صرف قید، صرف اندھیرا!
کیا کوئی ہے جو میرا ہاتھ تھامے؟
کیا کوئی ہے جو مجھے اس بے رحم دستور سے بچائے؟
کیا کوئی ہے جو میرے حق میں آواز بلند کرے؟
اگر معاشرہ زندہ ہے، اگر ضمیر جاگ سکتے ہیں،
تو مجھے بچاؤ! ورنہ یہ ظلم یونہی چلتا رہے گا،
اور ہر گلی، ہر گاؤں میں ایک اور معصوم بچی کی ہنسی چھن جائے گی!
You are a good woman and a resident of our Waziristan and you are also from our nation, Garrai and all of us Waziristanians are proud of you. May Allah Almighty always protect you, Amen.