
خیبرپختونخوا کے پشتون آبادی والے کچھ علاقوں میں مردوں کا اپنی ماں ، بہن یا بیوی کے ساتھ کھل کر بات نہ کرنے کا رواج آج بھی قائم ہے ۔
ہمارے پشتون کلچر میں مرد کا کردار روایتی طور پر بہت مضبوط اور فیصلہ ساز ہوتا ہے اور وہی خاندان کے اندر مالی ،سماجی ، اور ثقافتی معاملات کے ذمہ دار ہوتے ہیں جبکہ خواتین عموما گھریلو ذمہ داریوں تک محدود رہتی ہیں ایسے سماجی ڈھانچے میں مردوں کے لئے یہ تصور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی ماں بہن یا بیوی سے کچھ مخصوص موضوعات پر بات نہ کریں یا ان کی رائے کو اہمیت نہ دیں ۔یہ رویہ پشتون ثقافت کے روایتی اصولوں پر مبنی ہے جہاں مردانہ عزت اور غیرت کو بہت اہمیت دی جاتی ہیں۔مردوں کے لئے یہ سمجھا جاتا ہے کہ خواتین کیساتھ ذاتی یا خاندانی مسائل پر بات کرنا ان کی عزت میں کمی کا باعث ہوسکتا ہے اسی طرح خواتین کی رائے کو اکثر کم اہم سمجھا جاتا ہے ۔
۔1۔خواتین کے مسائل۔
بطور ایک باپ ، بھائی ، بیٹے اور شوہر کے مردوں کی عزت و احترام کرنا عورت پر فرض ہے اور ہر طرح سے عورت کو ان کا خیال رکھنا چاہیے مگر جب مرد اپنی ماں بہن یا بیوی کیساتھ کھل کر بات نہیں کرتے تو وہ ان خواتین کے مسائل کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں اور اس فاصلے سے خواتین کے بہت سے مسائل نظرانداز ہوجاتے ہیں۔
اس کی ایک مثال ڈیرہ اسماعیل خان سیلاب کے دوران کوریج کرتے ہوئے جب میں نے ایک مرد سے انٹرویو لیا اور مسائل پر سوال وجواب کرتے ہوئے جب بات خواتین کے سیلاب کے دوران مشکلات پر بات آئی تو جواب یہی ملا کہ خواتین کو کیا مشکل ہو سکتی ہے خیمہ ملا ہے خوراک امداد کے طور پر ملی ہے اور ان کو بس یہی چائیے اور کیا کرنا ہے اور جب میں انہی انٹرویو کرنے والے مرد کے گھر والی خواتین سے ملی اور بات چیت کی تو ان کے بے شمار مسائل و مشکلات سامنے آئے اور کچھ ایسی مشکلات جو واقعی ان خواتین کے لئے عذاب سے کم نہیں تھی اور سناتے ہوئے ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ۔
یہاں پر یہ مثال اسلئے دی کہ مرد اگر کھل کر گھر کی خواتین کیساتھ بات چیت نہیں کرتے تو انکے بے شمار مسائل و مشکلات سے وہ بے خبر رہتے ہیں۔
ہمارے پشتون معاشرے میں اس روایتی کلچر سے خواتین اپنے مسائل مردوں کو پہنچانے سے قاصر رہتی ہیں اور یوں ان کے مسائل حل ہونے کے بجائے مزید بڑھ جاتے ہیں ۔
بعض اوقات مرد کمیونٹی میں آزادانہ گفت وشنید کرتے ہیں لیکن جب گھر کی بات آتی ہے تو وہ خود کو محدود کرلیتے ہیں ۔اس رویے کی وجہ سے مرد اس حقیقت سے لاعلم رہتے ہیں کہ ان کی خواتین کن مشکلات سے دوچار ہیں۔
اب سوال یہ بنتا ہے کہ ان کا حل کیا ہے اور خواتین کے مسائل کیسے حل ہونگے ؟؟؟؟
تو کچھ ایسی تجاویر پر بات کرتے ہیں جو ہمارے معاشرے میں خواتین کے مسائل کو ہمارے پشتون کلچر کے برقرار رہتے ہوئے حل کئے جا سکتے ہیں۔
۔خواتین کے مسائل کو جاننے اور ان کے حل کے لئے مردوں کا اپنی گھر کی خواتین کیساتھ کھل کر بات کرنا اور ان کی رائے کو سننا ضروری ہے کیونکہ یہ مسئلہ صرف ذاتی یا خاندانی نہیں بلکہ یہ سماجی ترقی کا ایک اہم جزو بھی ہے ۔
۔ 2۔ تعلیم اور شعور ۔
تعلیم جو ایک بنیادی حق ہے اور اسلام میں تعلیم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد وعورت پر فرض ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کی تعلیم کو اہمیت نہیں دی جاتی اور یہی وجہ ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے ۔لڑکیوں کی تعلیم کی راہ میں بہت سی چیزیں رکاوٹ ہے لیکن ہمارے معاشرے میں جہاں لڑکیوں کی تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے وہی ہر لڑکو کی تعلیم بھی بہت کم ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں مرد اور خواتین ایک دوسرے کی زمہ داروں سے بخوبی اگاہ نہیں ۔تعلیم حاصل کرنے سے مرد اور خواتین ایک دوسرے کی ذمہ داریوں کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔
خاص کر خواتین کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کے مسائل کا حل صرف ان کی ذاتی جدوجہد تک محدود نہیں بلکہ انہیں خاندان اور معاشرت میں مردوں کے تعاون کی بھی بے حد ضرورت ہے ۔۔
حکومتی سطح پر بھی خواتین کے مسائل کے حل کے لئے خصوصی منصوبے متعارف کرانے چائیے ، ان مسائل کے حل کے لئے اقدامات اٹھانے چاہئیے اور ایک ریاست کی جو ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے شہریوں کو بنیادی سہولیات فراہم کریں
خواتین کے لئے تعلیم ، صحت، روزگار ، جیسے منصوبوں کے لئے عملی اقدامات اٹھانے چائیے اور اس کے ساتھ ساتھ خواتین کے حقوق کی حفاظت کے لئے سخت قوانین بھی ضروری ہیں تاکہ خواتین کو ہراساں کرنے جیسے واقعات کی روک تھام ہوسکیں
ہر کامیاب عورت کے پیچھے کامیاب مرد باپ ، بھائی ، شوہر اور بیٹا ہوتا ہے فرق صرف آپس کے رشتوں کی اہمیت کو سمجھنے اور باہمی احترام اور تعاون مہیا کرنے میں ہے۔
دختر وزیرستان رضیہ محسود
Ap ky tmam batian tik hy I agree likn ap NY interview my Jo bat Ki k khwatin k msayel buht hy agr ap wahi pr wo msyal Jo khwatin ny sailab k dwran face kaye agr byan hoty to buht acha hota hm bey shumar ko kuch explain kr ly to bat mubham na hogi