قربانی کی زنجیر: وٹے سٹے اور جھوٹی غیرت کے نام پر بیٹیوں کی بربادی(سچی کہانی)

تحریر ۔رضیہ محسود

یہ کہانی ایک ایسی لڑکی کی ہے جو دو بار قربانی دی گئی—پہلی بار وٹے سٹے کے نام پر، اور دوسری بار خاندان کی انا اور جھوٹی غیرت کی بھینٹ چڑھا کر۔ یہ کہانی ایک ایسی بیٹی کی ہے جو اپنے وہ  فیصلے خود نہ کر سکی جس کا اسلام نے اس کو اجازت دی ہیں جس کی رضامندی انتہائی اہمیت کی حامل ہیں  مگر اس کی خوشیاں دوسروں کے غرور کے نیچے دب گئیں۔

“شادی—بغیر رضامندی کے”

نورین (فرضی نام) کی شادی وٹے سٹے کے تحت ایک ایسے شخص سے کر دی گئی جو ان پڑھ تھا، جسے “سادہ” کہا جاتا تھا، اور جو زیادہ کچھ سمجھنے کے قابل بھی نہیں تھا۔ مگر نورین کو نہ اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کا اختیار تھا، نہ اپنی پسند کا۔ اسے سمجھایا گیا کہ عورت کو صبر کرنا چاہیے، گھر بسانا چاہیے، اور جو قسمت میں لکھا ہے اسے قبول کرنا چاہیے۔

وہ ایک خواب لے کر اس گھر میں گئی کہ شاید قسمت اس پر مہربان ہو جائے۔ مگر قسمت کی مہربانی زیادہ دیر نہ چل سکی۔

“والد کی انا، بیٹی کی قربانی”

شادی کے صرف چار دن بعد، نورین کے والد نے اپنی بیٹی کو بلایا اور کہا کہ اب یہ رشتہ ختم ہو گا۔ وہ اپنی ضد میں اندھا ہو چکا تھا، اسے اپنی بیٹی کے جذبات، اس کی خوشی یا اس کے مستقبل کی کوئی پرواہ نہ تھی۔ وہ بس اپنی انا کی تسکین چاہتا تھا، چاہے اس کی بیٹی کی زندگی برباد ہی کیوں نہ ہو جائے۔

نورین نے انکار کیا، روتی رہی، گڑگڑائی کہ اسے اپنے گھر میں رہنے دیا جائے، مگر بیٹیوں کی بات کون سنتا ہے؟

آخر کار، طلاق ہو گئی۔ صرف چار دن بعد۔

“نہ آزادی، نہ اختیار”

مگر کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی۔

نورین کو لگا تھا کہ شاید اب وہ اپنی زندگی کے لیے کوئی نیا راستہ چن سکے گی، مگر اس کے سابقہ شوہر نے اسے ایک نئی زنجیر میں جکڑ دیا۔

“یہ لڑکی فلاں علاقے میں شادی نہیں کر سکتی!”**— یہ حکم صادر کر دیا گیا۔

ایک ان پڑھ، سادہ شخص جس نے کبھی نورین کو سمجھا بھی نہیں، آج اس کے مستقبل پر پابندیاں لگا رہا تھا۔

اسے یہ حق کس نے دیا؟

معاشرہ، قبائلی روایات، یا وہی جھوٹی غیرت جس نے ہمیشہ عورت کو جینے نہیں دیا؟

نورین کے لیے راستے بند ہو گئے۔

طلاق کا داغ، سماج کی بے رحمی، اور خاندان کی بے حسی—یہ سب اس کے نصیب میں لکھ دیا گیا۔

“یہ کہانی نورین کی نہیں، ہم سب کی ہے”

یہ صرف ایک لڑکی کی نہیں، بلکہ ہزاروں لڑکیوں کی کہانی ہے۔

یہ ان لڑکیوں کی کہانی ہے جنہیں اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے کا حق نہیں دیا جاتا۔

یہ ان بیٹیوں کی کہانی ہے جنہیں وٹے سٹے کی قربان گاہ پر بے رحمی سے چڑھا دیا جاتا ہے۔

یہ ان عورتوں کی کہانی ہے جو ایک بار طلاق کے بعد بھی آزاد نہیں ہوتیں، بلکہ نئی زنجیروں میں جکڑی جاتی ہیں۔

آخر کب تک؟

کب تک عورتوں کو ان پڑھ شوہروں کے حوالے کر کے ان کے مستقبل کو تباہ کیا جاتا رہے گا؟

کب تک بیٹیوں کی خوشیوں کو خاندان کی ضد، انا اور جھوٹی غیرت کے نام پر قربان کیا جاتا رہے گا؟

کب تک ایک مرد کو یہ اختیار رہے گا کہ وہ کسی عورت کے مستقبل پر پابندیاں لگائے؟

یہ وقت ہے کہ ہم اس ظلم کے خلاف آواز بلند کریں، وٹے سٹے جیسے فرسودہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں، اور بیٹیوں کو جینے کا حق دیں۔ ورنہ ہر روز ایک نئی نورین پیدا ہو گی، اور ہر روز ایک نئی زندگی برباد ہوتی رہے گی

About the Author

Razia mehsood

i am from tehsil ladha south waziristan tribal district,i am the first active female journalist,Social worker,Social Activist,Chairperson District Comettee on the Status of Women SWTD.

2 thoughts on “قربانی کی زنجیر: وٹے سٹے اور جھوٹی غیرت کے نام پر بیٹیوں کی بربادی(سچی کہانی)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like these