رضیہ محسود کے قلم سے

وزیرستان کی عورت ایک جیتا جاگتا استعارہ ہے—ہمت، قربانی اور انتھک محنت کا۔ وہ صبح کی اذان سے پہلے پہاڑوں پر جاتی ہے، لکڑیاں کاٹ کر لاتی ہے، پانی کے گھڑے بھر کر گھر لے جاتی ہے، چولہا جلاتی ہے، گھر کی صفائی کرتی ہے، بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہے، کھیتوں میں کام کرتی ہے، بکریاں چراتی ہے، اور اگر کوئی گھر تعمیر ہو رہا ہو تو مٹی کی بالٹیاں سر پر اٹھا کر لاتی ہے۔ یہ سب اس کی روزمرہ زندگی کا حصہ ہے، مگر اس کی قربانیوں کو اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔
پشتون معاشرہ اپنی خواتین کا بے حد احترام کرتا ہے، لیکن افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ان کے حقوق کے معاملے میں سنگین غفلت برتی جاتی ہے۔ عورت کو خاندان کی عزت اور وقار کا نشان تو مانا جاتا ہے، مگر اسے تعلیم، معاشی خودمختاری، اور فیصلہ سازی کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ وہی عورت جو خاندان کی ریڑھ کی ہڈی ہے، اکثر اپنی ہی زندگی کے فیصلے کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔
یہ معاشرتی تضاد ہمارے پورے نظام کو کمزور کر رہا ہے۔ ایک عورت صرف ماں، بہن، بیوی یا بیٹی نہیں، بلکہ ایک مکمل انسان ہے، جس کے خواب، عزائم، اور صلاحیتیں ہیں۔ اگر اسے تعلیم، صحت، روزگار اور وراثت جیسے بنیادی حقوق میسر نہ ہوں، تو نہ صرف وہ خود پیچھے رہ جائے گی بلکہ پورا معاشرہ ترقی کی دوڑ میں پسماندہ رہ جائے گا۔
وقت آ چکا ہے کہ اس خاموش جدوجہد کو آواز دی جائے۔ خواتین کے حقوق صرف نعرے نہیں، بلکہ ایک ایسی حقیقت ہیں جسے تسلیم کرنا اور عملی جامہ پہنانا ضروری ہے۔ اگر وزیرستان کی عورت پہاڑوں کا سینہ چیر کر لکڑیاں لا سکتی ہے، کھیتوں میں خون پسینہ بہا سکتی ہے، اور ہر مشکل گھڑی میں اپنے خاندان کا سہارا بن سکتی ہے، تو وہ اپنے حقوق کی جنگ بھی جیت سکتی ہے۔ ہمیں اس جدوجہد میں اس کا ساتھ دینا ہوگا، تاکہ عزت و غیرت کے ساتھ ساتھ انصاف اور برابری کی بنیاد پر ایک مضبوط اور خوشحال معاشرہ تشکیل دیا جا سکے۔
✌️ Right 👉 ❤️👉❤️👉
Koe shak ni
This struggle is important and awareness call from proper platform is interesting. However, one must look for practical way outs. There must be practical steps to shoulder these issues.