
یہ کہانی صرف ایک عورت کی نہیں، بلکہ ہزاروں ایسی بے بس خواتین کی ہے، جو اس معاشرے میں اپنے ہی گناہگار نہیں بلکہ دوسروں کے کیے کی سزا بھگت رہی ہیں۔ یہ عورت وزیرستان کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتی ہے، جہاں زندگی کی مشکلات پہلے ہی کسی کڑے امتحان سے کم نہیں۔ مگر اس پر بیتنے والا درد شاید الفاظ میں بیان نہ کیا جا سکے۔
یہ ایک بیوی ہے، ایک ماں ہے، جو اپنی محنت سے اپنے بچوں کا پیٹ پال رہی ہے۔ دن رات سلائی مشین کے ساتھ گزار کر چند روپے کماتی ہے، تاکہ اپنے بچوں کو بھوک سے بچا سکے۔ مگر اس کی زندگی کی سب سے بڑی مشکل یہ نہیں، بلکہ وہ ٹھپا ہے جو اس پر اس کے شوہر کے اعمال نے لگا دیا ہے۔
اس کا شوہر ایک ایسا شخص تھا جس کا راستہ خود اس نے چنا تھا۔ وہ ایک بار پکڑا گیا، طویل عرصے تک جیل میں رہا، اور جب باہر آیا تو پھر وہی راستہ اپنایا۔ پھر ایک دن غائب ہو گیا۔ نہ کوئی خبر، نہ کوئی سراغ۔ وہ زندہ ہے یا مر چکا؟ کوئی نہیں جانتا۔ مگر جو پیچھے رہ گئے، ان کی زندگی موت سے بھی بدتر ہو گئی۔
سسرال نے صاف کہہ دیا: “ہم خود اپنے بچوں کو پالنے کے قابل نہیں، تمہارا بوجھ کیسے اٹھائیں؟”
میکے والوں نے بھی دروازہ بند کر لیا: “ہم نے تمہیں بیاہ کر تمہاری ذمہ داری پوری کر دی، اب ہمارا تم سے کیا تعلق؟”
یہ عورت اب بے یار و مددگار ہے، مگر اس کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ وہ ایک ایسے انسان کی بیوی تھی جس کو معاشرہ اچھے الفاظ میں یاد نہیں کرتا۔ کیا یہ اس کی غلطی تھی؟ کیا اس کے پاس کوئی اختیار تھا کہ وہ اپنے شوہر کو روک سکتی؟ ایک عورت، جو اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہو، جو بچوں کے نوالے کے لیے مشقت کر رہی ہو، اسے ایسے ناکردہ جرم کی سزا کیوں؟
یہ ہمارے معاشرے کی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب ایک عورت بیاہ دی جاتی ہے تو والدین خود کو اس کی ہر ذمہ داری سے سبکدوش سمجھ لیتے ہیں۔ جو جائیداد، جو حقوق، جو اسلامی حصہ اس کا بنتا ہے، وہ سب دھیرے دھیرے خاندان کے دوسرے افراد کے حصے میں چلا جاتا ہے۔ مگر جب وہ تنہا رہ جائے، جب کوئی اس کا سہارا نہ بنے، تب نہ والدین کھڑے ہوتے ہیں، نہ سسرال، اور نہ ہی وہ معاشرہ جو صرف الزام تراشی کے لیے زندہ ہے۔
یہ کہانی ایک آواز ہے، ایک پکار ہے، ان تمام لوگوں کے لیے جو کسی کی بے بسی پر خاموش رہتے ہیں۔ کیا ہم بحیثیت انسان، بحیثیت معاشرہ، ایسے بے قصور لوگوں کے لیے کچھ نہیں کر سکتے؟ کیا ہم انہیں عزت سے جینے کا حق نہیں دے سکتے؟
یہ وقت ہے کہ ہم اپنی سوچ بدلیں، اپنے رویے بدلیں، اور ان عورتوں کے لیے امید کا راستہ کھولیں جو اپنے ناکردہ جرم کی سزا بھگت رہی ہیں۔ کیونکہ جرم کسی اور کا ہو، مگر اس کی سزا کسی معصوم پر تھوپ دینا سب سے بڑی ناانصافی ہے۔
Agree
صرف یہی نہیں بلکہ ہزاروں عورتیں ایسی اور بھی ہیں جنکو انہی مشکلات میں ڈالا گیا ہے بس ہم پر جو بھی عذاب آتا ہے ہمارے اپنے ہی اعمال سے آتا ہے۔
دعا ہے کہ اللّٰہ پاک ہم سب کو ہدایت دے اور صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق دے
آمین یارب العالمین 🤲😥
Agar society ma Nikah koo Aam kya jaye. نکاح ko Asaan kya jaye. Awer omer Raseeda awer Bewa ke shadi ka riwaaj aam kya jaayee…tho bohoth se be sahara logo ka sur ke chut awer Jeenee ka Sahara mil jayee ga